ماں جی مریم دهورات رحمها الله
سادگی و عاجزی، بے لوث خدمت کی امیں
اے کہ تیری ذات پہ نازاں فلک، حیراں زمیں
کب تجھے خوش آئی مال و جاہ و منصب کی دمک
تھا یہ نصب العین کہ ہے دارِ فانی کچھ نہیں
عنفوانِ عمر میں بے ماں کے بچوں کے لیے
دوسری بیوی بنی، شفقت لٹانے کے لیے
غربت و افلاس اور قرضے میں ڈوبا اک امام
حافظ قرآں چنا، عقبی بنانے کے لیے
راہ الفت پر چلی دنیا سے رشتہ توڑ کر
رب کی خوشنودی کی خاطر، عیش و عشرت چھوڑ کر
تنگ دستی پر رہی راضی بلا شکوہ مَدام
زخمِ دل پر پھایا رکھ، ٹوٹے دلوں کو جوڑ کر
تو نے دکھلایا جہاں کو کیسے اک سوتیلی ماں
پانچ بچوں کے لیے چاہے تو بن جاۓ اَمَاں
دستِ رحمت پھیر کر، خونِ جگر سے سینچ کر
چھوٹی سی کُٹیا میں پیدا کر دے گلشن کا سماں
پانچ بچے فضل ربی سے ہوۓ اس کو عطا
بخشا یہ اعزاز کہ ہو وجہِ فخرِ مصطفی
سایۂ لطف و کرم میں ڈھانپے دس بچوں کو وہ
کچھ گلہ کرتی نہ تھی, منظور تھا حکمِ خدا
هند سے لسٹر کو ہجرت کے بنے اسباب جب
مشکلیں آئیں، نہ پِھیلایا مگر دستِ طلب
ہر قدم شوہر کی پُشتیباں رہی وہ با وفا
تربیت، خاطر مدارات و گھرستی سب کا سب
وقت گزرا، گردشِ ایام نے انگڑائی لی
دن پھرے، آسودگی نے اس کے گھر کی راہ لی
بچے بھی علم و ہنر سے بہرہ مند ہوتے گئے
مال کی وسعت مگر اس کو نہ غافل کر سکی
پھر اچانک سب کے جھرمٹ میں وہ اک دن کھو گئی
ذکر کرتے، سورۂ رحمان سنتے سو گئی
کوئی کلفت نہ کوئی سختی نہ کوئی ہاۓ ہو
جی رہی تھی جس کی خاطر، اس سے واصل ہو گئی
کچھ عجب منظر تھے گھر والوں کی راحت کے لیے
مسکرانا، رنگ نکھر جانا، بشارت کے لیے
کرتی تھی زیرِ کفن انگشت سے جنبش کبھی
اپنے مالک سے محبت کی شہادت کے لیے
تھا جنازہ رشکِ خورشید و قمر، نجم و فلک
صالحین و ذاکرین و دل فگاروں کی کُمَک
ہر طرف دھیمے سُروں میں رب تعالی کا کلام
سر جھکے، بوجھل قدم؛ آنکھوں میں غم، دل میں کسک
نیک بختی دیکھیے مر کر دلوں پر چھا گئی
اپنے شوہر ہی کے قدموں میں جگہ وہ پا گئی
چھوڑ کر اَن مِٹ نشاں ایثار و قربانی کے وہ
عام سی عورت تھی پر ایمان کو گرما گئی
ہے دعا دل سے خداۓ کارساز و ذی وقار
ہر خطا سے درگزر ہو، اجرِ نیکی بے شمار
ابرِ رحمت سایہ بن کر لحد پہ چھایا رہے
سوگواروں کو عطا ہو صبر، اے پروردگار
شان سے اس کو ملائک لے کے جاتے ہوں وہاں
خالق ارض و سماء کی رحمتیں برسَیں جہاں
مسکراتی، جھومتی جاتی ہو علییین میں
پر سکون و بے خطر، قدوسیوں کا کاررواں
اسوۂ ماں جی سے سیکھیں آج کے سب نوجواں
مقصد اپنی زندگی کا خاک ہے یا آسماں
جو مزہ اسلام اور احسان پر چلنے میں ہے
حسنِ فانی، مال و زر اور دنیا داری میں کہاں
محمد سليم انور عفي عنه
6 اكتوبر 2024