اعتراف جرم
تیرے بندے تری رحمت کے سزاوار نہیں
غفلت و معصیت و ظلم سے بیزار نہیں
فانی دنیا ہی کی رنگینی پہ قانع ہو کر
کیا غضب ہے تری جنت کے طلبگار نہیں
کاغذی پھولوں پہ مر مٹ کے ہوۓ بے قیمت
ہاۓ افسوس ترے حسن کے دلدار نہیں
جن کی محنت ہی سے یہ دین جہاں میں پھیلا
ان کے خلف ان کے اصولوں سے وفادار نہیں
مستعد تھے کہ وہ قربان کریں دیدہ و دل
اور یہ ترکِ کبائر کے روادار نہیں
دعوے لاکھوں ہیں، تمنائیں ہزاروں لیکن
دل مگر لذت ایمان سے سرشار نہیں
کیوں نہ پھر غیروں کے ہاتھوں رہیں پستے کٹتے
جو نگہ دار و وفادار و علم دار نہیں!
یہ تو گاہے، بہ ضرورت ترا دم بھرتے ہیں
اور جو تیرے ہی منکر ہیں وہ دو چار نہیں
کوئی انکار کرے دل میں تو شکوہ کیسا
ان کی شوریدہ سری کیا سرِ بازار نہیں ؟
یوں تو ہر دم ہے فقط حزن و غم و یاس و الم
پر تری شانِ کریمی پہ کوئی بار نہیں
کس طرح سر کو اٹھاؤں کہ ندامت کے سبب
ہمت و حوصلہ بالکل میرے سرکار نہیں
محمد سلیم انور عفی عنه
28/04/2024